پرانے وقتوں کی بات ہے۔
ایک شخص نے کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو وہ حیران رہ گئے اور اس کے پاس پہنچے۔
پوچھنے لگے:
“بھائی، تم نے بیوی کو طلاق کیوں دی؟”
وہ شخص خاموش رہا، پھر مسکرا کر بولا:
“میری بیوی ابھی عدت میں ہے۔ اگر میں چاہوں تو اس سے رجوع کر سکتا ہوں۔
اگر میں آج اس کے عیب بیان کر دوں، تو کل میں اس سے کس منہ سے رجوع کروں گا؟”
لوگ کچھ سمجھے، کچھ نہیں سمجھے اور چلے گئے۔
وقت گزرا، عدت ختم ہو گئی، مگر اس شخص نے رجوع نہ کیا۔
پھر وہی لوگ دوبارہ آئے، سوال کیا:
“اب تو تم رجوع بھی نہیں کر سکتے، اب تو بتا دو کہ طلاق کی وجہ کیا تھی؟”
اس شخص نے بڑے سکون سے جواب دیا:
“اگر میں اب اس کے عیب بتاؤں، تو اس کی عزت کو مجروح کروں گا۔
لوگ اسے برا سمجھیں گے، اس کی شادی مشکل ہو جائے گی۔
میں ایسا ظلم کیسے کر سکتا ہوں؟”
وقت گزرتا گیا، اور وہ عورت ایک دوسرے شخص سے بیاہ دی گئی۔
جب لوگوں کو پتا چلا، تو وہ پھر اس شخص کے پاس پہنچے۔
کہنے لگے:
“اب تو وہ کسی اور کی بیوی ہے، اب تو بتا دو کہ طلاق کیوں دی تھی؟”
اس نے دھیرے سے کہا:
“اب وہ کسی اور کی عزت ہے۔
اور مروّت کا تقاضا یہ ہے کہ میں کسی پرائی عورت کے بارے میں زبان نہ کھولوں۔”
واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے تھے:
"> جب کسی کو چھوڑ دو تو اسے رسوا مت کرو۔"
کیونکہ شرافت یہی ہے کہ جدا ہونے کے بعد بھی عزت قائم رکھی جائے۔
محبت کا اصل حسن یہی ہے کہ نفرت میں بھی وقار باقی رہے۔
یہ دل بُرا سہی، پر سَرِ بازار تو نہ کہہ
آخر تو اس مکان میں کچھ دن رہا بھی ہے
سبق:
رشتے ٹوٹ جائیں، دل دکھ جائیں، مگر کردار ہمیشہ بلند رہنا چاہیے۔
انسان کی اصل پہچان یہ نہیں کہ وہ کس سے محبت کرتا ہے،
بلکہ یہ ہے کہ وہ کس سے جدا ہونے کے بعد بھی عزت برقرار رکھتا ہے۔
Post a Comment