کان پر پینسل رکھنا: حکمت، فصاحت اور دماغی تیزی کا نکتۂ اتصال
روزمرہ زندگی میں ہم اکثر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ پینسل یا قلم کو کان پر رکھ لیتے ہیں۔ یہ عمل بظاہر ایک سادہ عادت معلوم ہوتی ہے، مگر اگر اس کی تہہ میں جھانکا جائے تو یہ ایک گہری حکمت، شعور، اور ادبی انداز کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عادت محض سہولت یا سستی کا اظہار نہیں، بلکہ کئی اعتبار سے دماغی فعالیت، فوری یادداشت، اور فکری آمادگی کی علامت ہے۔
فصحا کے نزدیک اس عمل کی حیثیت
ادبی مجالس میں، بالخصوص فصحا اور اربابِ قلم کی محفلوں میں، کان پر پینسل رکھنے کا عمل کسی فنکارانہ وقار سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ایک علامت ہے کہ صاحبِ قلم ہمہ وقت فکر و نظر کے لیے تیار ہے۔ پینسل کی موجودگی اس بات کا پیغام دیتی ہے کہ خیالات جب آئیں، فوراً لکھ لیے جائیں۔
فصحا اسے ایک “ادبی چال” سمجھتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے کوئی خطاط اپنے قلم کو کان پر رکھ کر اپنی مہارت اور تیاری کا اعلان کرتا ہے۔
کان پر پینسل رکھنا اور آنکھ کی نوک
کان پر پینسل رکھنے کا عمل آنکھ کے قریب ہوتا ہے، اور دماغ کا تعلق آنکھ سے بہت گہرا ہے۔ آنکھیں خیالات کی کھڑکیاں ہیں اور پینسل ان خیالات کو قید کرنے کا ذریعہ۔ جب پینسل آنکھ کے قریب ہوتی ہے تو وہ لاشعور میں ذہن کو متنبہ کرتی ہے کہ لکھنے کا لمحہ قریب ہے۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق، کسی چیز کی موجودگی ہمارے ذہن کو اس کام کے لیے تیار رکھتی ہے۔ کان پر پینسل رکھنے سے دماغی سرگرمی تیز ہوتی ہے، جیسے دماغ ہمہ وقت الرٹ ہو کہ کوئی نکتہ، کوئی جملہ، کوئی خیال فوراً گرفت میں لے لیا جائے۔
فوائد
1. فکری آمادگی: کان پر پینسل رکھنے سے ایک نفسیاتی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ لکھنا ہے، سوچنا ہے، غور کرنا ہے۔
2. یادداشت کی بہتری: یہ عمل دماغ کو فعال رکھتا ہے، کیونکہ پینسل کو دیکھ کر خیالات تیزی سے ابھرتے ہیں۔
3. ادبی وقار: یہ ایک تہذیبی اور ادبی علامت بن چکی ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو علم و قلم سے تعلق رکھتے ہیں۔
4. سہولت: یہ طریقہ اس بات کا اظہار ہے کہ لکھنے والا اپنی سہولت اور چستی کے لیے ہر وقت تیار ہے، جیسے کوئی سپاہی ہر وقت ہتھیار سے لیس رہتا ہے۔
دماغی تیزی اور تخلیقی قوت
جب آپ کان پر پینسل رکھتے ہیں، تو یہ دماغی مشق بن جاتی ہے۔ دماغ اسے ایک "ٹاسک الرٹ" کی طرح لیتا ہے کہ کچھ کرنے کا وقت ہے۔ اس سے سوچنے کی رفتار بڑھتی ہے اور تخلیقی خیالات جلدی آتے ہیں۔
بچپن میں استاد جو بچے کو پینسل ساتھ رکھنے کی تاکید کرتے تھے، وہ بھی اسی فطری ذہنی تربیت کا حصہ تھی۔
نتیجہ
کان پر پینسل رکھنا محض ایک عادت نہیں، بلکہ ایک حکمت ہے۔ یہ فصاحت، ذہانت، اور آمادگی کا نشان ہے۔ جو لوگ اپنے خیالات کو قید کرنا جانتے ہیں، وہی اصل لکھاری اور دانشور ہوتے ہیں۔ اس لیے اگلی بار جب آپ پینسل کان پر رکھیں، تو فخر سے رکھیں، کیونکہ یہ علامت ہے ایک بیدار، باخبر، اور تخلیقی ذہن کی۔
نثر نگار: رابیعہ خان
Post a Comment