یہ خبر سن کر گھوڑا آگ بگولہ ہو گیا۔
تپتے ہوئے لہجے میں بولا:
"کیا میں گدھے سے کم ہوں؟
میں تیری ہی نسل سے ہوں, خونِ اصیل، طاقت سے بھرپور!
مجھ پر سوار ہوکر جنگیں لڑی گئیں،
میں نے بیابان، جنگل، پہاڑ، اور میدانِ جنگ سب فتح کیے۔
میں وہ ہوں جسے بحرِ ظلمات میں بھی دوڑا دیا گیا۔
میں پھرتیلا، جری، اور توانائی سے لبریز ہوں۔
اسی لیے تو طاقت کی پیمائش Horse Power کہلاتی ہے۔
اور 'لمبی ریس کا گھوڑا'… یہ محاورہ بھی میرے ہی نام سے جڑا ہے!"
گھوڑی نے نہایت سکون سے مسکرا کر جواب دیا:
"حضور، گھوڑوں کا زمانہ اب بیت چکا ہے۔
آج کے دور میں گدھوں کا زمانہ ہے۔
گھوڑے رنگ برنگے ضرور ہوتے ہیں،
لال، پیلے، چتکبرے، کالے، سفید،
مگر رنگ والوں کے غلام بھی اکثر یہی گھوڑے ہوتے ہیں!
اور گدھے؟
ایک ہی رنگ کے، سادہ، عاجز، منکسر المزاج…
ہمیشہ سر جھکائے کام میں مصروف،
ڈنڈے کھا کر بھی چپ چاپ بوجھ اٹھاتے رہتے ہیں۔
ذمہ داریوں کے تلے ان کی کمر جھک جاتی ہے،
مگر زبان پر کبھی شکوہ نہیں آتا۔
میری ماں نے یہ رشتہ اسی سوچ کے ساتھ طے کیا ہے کہ
زندگی کوئی لمبی ریس نہیں،
بلکہ بوجھ اٹھانے کا نام ہے۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ رشتہ اُس سے ہو
جو زیادہ کام کرے،
چاہے وہ گدھا ہی کیوں نہ ہو!"
🤣🤣🤣
پلیز نیچے comment ضرور کریں
👇👇👇👇
Post a Comment